امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا مقصد/ اسلام اور قرآن کی عظمت کا دفاع

IQNA

امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا مقصد/ اسلام اور قرآن کی عظمت کا دفاع

10:55 - September 20, 2018
خبر کا کوڈ: 3505121
بین الاقوامی گروپ: امام حسین بن علی علیھما السلام، رسول اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نواسے اور شیعوں کے تیسرے امام ہیں۔

ایکنا نیوز-سید الشہدا، امام حسین بن علی علیھما السلام، رسول اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نواسے اور شیعوں کے تیسرے امام ہیں۔ آپ (ع) کی مادر گرامی سیدہ کونین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا ہیں۔ آپ ہجرت کے تیسرے سال تین شعبان کو یا دوسری روایت کے مطابق ہجرت کے چوتھے سال تیسری یا پانچویں شعبان کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ جب اس نومولود کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لے جایا گیا تو آپ مسرت سے پھولے نہ سمائےاور آپ کے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہی۔

محسن انسانيت حضرت امام حسين عليہ السلام کي ذات اقدس عالم انسانيت کے لئے منبع رشد و ہدايت اور سرچشمہ کردار و عمل ہے- آپ ع نے گناہ آلود معاشرے کو ديني اقدار اور جذبہ حريت کے ذريعے اسلام کے سانچے ميں ڈھالنے کے لئے لہو رنگ جدوجہد کي- آج بھي آپ کي سيرت عاليہ پر عمل پيرا ہوکر پوري دنيا کو اسلام کے پرچم تلے جمع کيا جا سکتا ہے- آپ ص نے امام حسين ع کو اپنے آپ سے اور اپنے آپ کو امام حسين ع سے قرار ديا ہے اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اور امام حسين عليہ السلام کا تعلق کس قدر راسخ ہے- امام حسين ع کي حيات مبارکہ ميں رسول معظم ص کے اکتساب کا فيض ملتا ہے- آپ ع نے مکتب نبوت اور مکتب ولايت کي تعليم اپنے طاہر و اطہر گھرانے سے حاصل کرکے نبوت و ولايت کے پيروکاروں کو اس انداز ميں پہنچائي کہ آج اگر کوئي مسلمان سيرت محمدي ص اور سيرت علوي ع کا نمونہ ديکھنا چاہے تو اسے امام حسين ع کي ذات و کمالات کا مطالعہ کرنا پڑے گا-

امام حسین اور قرآن مجید

گر قرآن سيد الکلام ہے (1) تو امام حسين سيد الشہداء ہيں (2) ہم قرآن کے سلسلے ميں پڑھتے ہيں، ''ميزان القسط'' (3) تو امام حسين فرماتے ہيں،''امرت بالقسط'' (4) اگر قرآن پروردگار عالم کا موعظہ ہے،''موعظة من ربکم''(5) تو امام حسين نے روز عاشورا فرمايا ''لا تعجلوا حتيٰ اعظکم بالحق'' (6) (جلدي نہ کرو تاکہ تم کو حق کي نصيحت و موعظہ کروں) اگر قرآن لوگوں کو رشد کي طرف ہدايت کرتا ہے، ''يھدي الي الرشد'' (7) تو امام حسين نے بھي فرمايا،''ادعوکم الي سبيل الرشاد'' (8) (ميں تم کو راہ راست کي طرف ہدايت کرتاہوں) اگر قرآن عظيم ہے، ''والقرآن العظيم'' (9)  تو امام حسين بھي عظيم سابقہ رکھتے ہيں،''عظيم السوابق''(1٠ )-

اگر قرآن حق و يقين ہے،''وانہ لحق اليقين''(11) تو امام حسين کي زيارت ميں بھي ہم پڑھتے ہيں کہ :صدق و خلوص کے ساتھ آپ نے اتني عبادت کي کہ يقين کے درجہ تک پہنچ گئے''حتيٰ اتاک اليقين''(12) اگر قرآن مقام شفاعت رکھتا ہے ،''نعم الشفيع القرآن''(13) تو امام حسين بھي مقام شفاعت رکھتے ہيں''وارزقني شفاعة الحسين''(14) اگر صحيفہ سجاديہ کي بياليسويں دعا ميں ہم پڑھتے ہيں کہ قرآن نجات کا پرچم ہے ،''علم نجاة''تو امام حسين کي زيارت ميں بھي ہم پڑھتے ہيں کہ آپ بھي ہدايت کا پرچم ہيں،''انہ راےة الھديٰ''(15) اگر قرآن شفا بخش ہے،''وننزل من القرآن ما ھو شفائ'' (16) تو امام حسين کي خاک بھي شفا ہے ،''طين قبر الحسين شفائ'' (17)-

اگر قرآن منار حکمت ہے (18) تو امام حسين بھي حکمت الٰہي کا دروازہ ہيں ،''السلام عليک يا باب حکمة رب العالمين''(19) اگر قرآن امر بالمعروف کرتا ہے ،''فالقرآن آمروا زاجراً''(٢٠ ) تو امام حسين نے بھي فرمايا،''ميرا کربلا جانے کا مقصد امر بالمعروف ونھي عن المنکر ہے-اريد ان آمر بالمعروف و انھيٰ عن المنکر''(21) اگر قرآن نور ہے،''نوراً مبيناً''تو امام حسين بھي نور ہيں ،''کنت نوراً في اصلاب الشامخة''(22) اگر قرآن ہر زمانے اور تمام افرادکے لئے ہے،''لم يجعل القرآن لزمان دون زمان ولا للناس دون ناس''(23) تو اما م حسين کہ سلسلہ ميں بھي پڑھتے ہيں کہ کربلا کے آثار کبھي مخفي نہيں ہوں گے،''لا يدرس آثارہ ولا يمحيٰ اسمہ''(24)-

شہادت امام عالی مقام 

رسولِ اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے اس دنيا سے رحلت کر جانے کے محض پچاس سال کے اندر اندر آپ کے خون پسينے سے سينچے گئے دينِ خدا کے نوزائيدہ گلشن پر وحشيانہ حملے ہوئے اور تدريجاً دينِ اسلام پر ايسا برا وقت آ پڑا کہ اس کي ڈوبتي نبضوں کو سنبھالا دينے کے لئے نواسۂ رسول حضرت امام حسين عليہ السلام کو حتمي اور آخري اقدام کے طور پر اپنا، اپنے اہل و عيال اور اپنے رفقاء کا خون عطيہ کرنا پڑا- محرم سنہ 61 ھ ميں کربلا کي زمين ميں خانوادۂ رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کا جذب ہونے والا پاکيزہ لہو دراصل شفق پر سرخي بن کر چھا گيا اور اس معطر لہو کي مہک دو عالم ميں پھيل گئي- صدياں بيت گئيں ليکن حسين کا غم بدستور تازہ ہے اور عاشقان اہل بيت آج بھي عقيدت و احترام سے مجالس عزا کا انعقاد کرتے ہيں-

 بقول علامہ اقبال:

يہ شہادت گہ الفت  ميں  قدم رکھنا ہے

لوگ آسان سمجھتے  ہيں  مسلماں ہونا

يہ دراصل اس جنگ کا تسلسل ہے جو روزِ ازل سے رحمٰن و شيطان کے درميان شروع ہوئي اور روز حشر تک جاري رہے گي- اس جنگ کا عروج 10 محرم الحرام 61ھ کو کربلا کے ميدان ميں ہوا، جب حق اور باطل ايک دوسرے کے آمنے سامنے آئے - يہاں فتح و شکست کے معنٰي ہي بدل گئے- ايسا عجب معرکہ ہوا کہ ہر قسم کا اسلحہ اپني بھرپور قوت دکھا کر بھي شکست خوردہ رہا اور بہتا ہوا لہو شمشير پر غالب آگيا- يہ ايسي جنگ تھي جس کے بظاہر فاتحين اپنے مفتوحين کے سروں سے سجے پرچم اٹھا کر اپني فتح کا اعلان کرنے چلے، ليکن انہي مقدس سروں کي وارث کچھ بے ردا سروں والي عفت مآب ہستيوں نے فتح کا اصل معنٰي سارے جہان کو کچھ اس انداز ميں سمجھانا شروع کيا کہ دنيا کو يزيديت کا اصل چہرہ دکھائي دينے لگا اور جسکي قسمت ياور رہي، وہ حسين عليہ السلام کا عزادار بنتا چلا گيا-

حقيقت يہ ہے کہ حسين (ع) کسي ايک مسلک و فرقے کا نہيں- حسين (ع) انسان اور انسانيت کے ہيرو کا نام ہے- يہ بات 10 محرم 61ھ کو واضح ہوگئي تھي کہ جہاں جھوٹ، فريب، فتنہ، فساد اور لوٹ مار ہوگي وہاں يزيد ہوگا اور جہان حق ہي حق ہو، وہ حسين (ع) کي سلطنت ہوتي ہے- خانوادۂ رسول پر پڑنے والے مصائب کي ياد منانا اور اپنے اپنے انداز ميں اس کا اظہار کرنا ہر شخص کا ذاتي فعل، اسکي معرفت کے معيار کا عکاس اور اس کے جذبات و احساسات کا ترجمان ہے-

انسان کا تعلق چاہے کسي بھي مسلک اور فرقے سے ہو يا وہ کوئي بھي نقطۂ نظر رکھتا ہو، کربلا وہ واحد نقطۂ اشتراک ہے جہاں تمام مسلمان صديوں سے متفق ہيں- ليکن طاغوتي سازشوں نے عقائد پر حملہ کر کے مسلمانوں سے ان کي وحدت چھيننے کي کوشش کي ہے- اب يہ ہماري ذمہ داري ہے کہ اپنے دشمن کو پہچانيں اور اپنے اتحاد کے ذريعے اس کي سازشوں کو ناکام بنا ديں- 

 

حوالہ جات:

(1)مجمع البيان،ج2،ص361- (2)کامل الزيارات-

(3)جامع الاحاديث الشيعہ،ج12،ص481-

 (4)سورہ يونس/57-

(5)لواعج الاشجان،ص26-

(6) سورہ جن/2-

(7)لواعج الاشجان،ص128-

 (8)سورہ حجر/87-

(9)بحار،ج98،ص239-

 (1٠ )سورہ الحاقہ/51-

(11)کامل الزيارات،ص2٠ 2-

 (12)نھج الفصاحة،جملہ،ص662-

(13)زيارات عاشورا-

(14)کامل الزيارات،ص٧٠ -

(15)سورہ اسرائ/82-

(16)من لا يحضر ہ الفقيہ،ج2،ص446-

(17)الحياة،ج2،ص188-

 (18)مفاتيح الجنان-

(19)نھج البلاغہ،ح182-

(٢٠ ) مقتل خوارزمي،ج1،ص188-

(21)سورہ نسائ/174-

(22)کامل الزيارات،ص2٠٠ -

(23)سفينة البحار،ج2،ص113-

 (24)مقتل مقرم-

نظرات بینندگان
captcha